مرزا غلام احمد قادیانی کے 99 ناموں کا عقائدی و فکری تجزیہ
مرزا غلام احمد قادیانی کے ۹۹ نام
ذوالقرنین |
اسماعیل |
مرزا غلام احمد قادیانی |
احمد |
سلمان |
یعقوب |
مرزا |
محمد |
علی |
یوسف |
عیسیٰ |
مہدی |
منصور |
موسیٰ |
مسیح |
یاسین |
حجۃ اللہ القادر |
ہارون |
مسیح موعود |
رسول |
سلطان احمد مختار |
داؤد |
مسیح اللہ |
مرسل |
حب اللہ |
سلیمان |
مسیح الزمان |
نبی اللہ |
خلیل اللہ |
یحییٰ |
الشیخ المسیح |
نذیر |
اسد اللہ |
جری اللہ فی حلل الانبیاء |
مسیح ابن مریم |
مجدد وقت |
شفیع اللہ |
عبداللہ |
مسیحِ محمدی |
محدث اللہ |
کنگ آف آریہنز |
عبدالقادر |
روح اللہ |
گورنر جنرل |
کرشن |
سلطان عبدالقادر |
مریم |
حَکَم |
رودر گوپال |
عبدالحکیم |
ابن مریم |
عدل |
امین الملک جے سنگھ بہادر |
عبدالرحمٰن |
آدم |
امام |
برہمن اوتار |
عبدالرافع |
نوح |
امام مبارک |
شمس |
آواہن |
||
اول المؤمنین |
مبارک |
||
سلامتی کا شہزادہ |
سلطان القلم |
||
مقبول |
مسرور |
||
مردِ سلامت |
النجم الثاقب |
||
الحق |
راہی الاسلام |
||
ذوالبرکات |
حمی الاسلام |
||
البدر |
غالب |
||
حجر اسود |
مبشّر |
||
مدینۃ العلم |
خیر الانام |
||
طیب |
اسد |
||
مقبول الرحمٰن |
شیرِ خدا |
||
کلمۃ الازل |
شاہد |
||
غازی |
خلیفۃ اللہ السلطان |
||
شمس |
نور |
||
اول المؤمنین |
امین |
||
سلامتی کا شہزادہ |
رجل من فارس |
||
مقبول |
سراج منیر |
||
مردِ سلامت |
متوکل |
||
الحق |
اشجع الناس |
||
ذوالبرکات |
ولی |
||
البدر |
قمر |
نوٹ: یہ نام قادیانی جماعت کی کتب، تحریرات اور دعووں میں مرزا غلام احمد قادیانی سے منسوب کیے گئے ہیں۔
نبوت کے دعوے کے مظاہر
مرزا غلام احمد قادیانی کی جانب سے لیے گئے کچھ نام اور القابات جیسے “نبی اللہ”، “رسول”، اور “مسیح موعود” اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ خود کو ایک نبی یا رسول سمجھتے تھے۔ یہ معاملہ صرف الفاظ کا نہیں بلکہ ایک مکمل عقائدی دعویٰ ہے جو اسلام کے ایک بنیادی عقیدے، ختم نبوت، سے براہ راست متصادم ہے۔
اسلام میں ختم نبوت کا تصور بہت واضح ہے۔ نبی کریم محمد ﷺ کو “خاتم النبین” کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ قرآنِ کریم، سورۃ الاحزاب (آیت 40) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔“
مرزا غلام احمد کے ان دعووں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کی نگاہ میں صرف ایک مصلح یا بزرگ نہیں بلکہ ایک مستقل نبی یا رسول کا درجہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ماننے والے انہیں “ظلی نبی” اور “مسیح موعود” جیسے القابات سے پکارتے ہیں۔
روحانی درجہ بندی میں افضلیت کا دعویٰ
مرزا غلام احمد کے بعض اقوال اور ان سے منسوب القابات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خود کو بعض پہلوؤں میں نبی کریم ﷺ سے بھی بلند مرتبہ سمجھتے تھے، جیسے “افضل الانبیاء”، “محمدِ ثانی” اور “آئینۂ کامل محمدی”۔
اس طرح کے الفاظ عام اسلامی عقائد کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ کی حتمی اور افضل حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
علماء اسلام نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ کسی شخص کو نبی کریم ﷺ کی برابری یا افضلیت دینا کفر کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے علماء اور مفتیان نے قادیانی عقائد کو کفر قرار دیا ہے اور مرزا غلام احمد کے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔
بدعت اور دینی اختراعات کا مفہوم
دین میں اختراع (بدعت) کی ممانعت
اسلام میں بدعت یعنی ایسی نئی چیز جو دین میں نبی کریم ﷺ کے بعد شامل کی جائے، سختی سے ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم شریف 867)
مرزا غلام احمد کے لیے 99 ناموں کی فہرست مرتب کرنا نہ صرف ایک غیر ضروری اضافہ ہے بلکہ اسلامی عقائد کی روح کے خلاف بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے 99 نام اور نبی کریم ﷺ کے معزز القابات کو ہمیشہ ایک مقدس دائرے میں رکھا گیا ہے۔ ان جیسی فہرستیں کسی اور کے لیے ترتیب دینا گویا اس دائرے میں دخل اندازی ہے۔
قادیانی جماعت کے پیروکاروں نے مرزا غلام احمد کے لیے جن 99 ناموں کی فہرست بنائی، وہ نہ صرف اسلامی روایت کی تقلید ہے بلکہ اس میں ایک نئی رسم کا اضافہ بھی ہے۔ “الفضل” 1937 میں اس فہرست کو شائع کیا گیا، اور اس کے بعد اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔
یہ عمل ایک نئی مذہبی شناخت پیدا کرنے کی کوشش تھی جو کہ مکمل طور پر ایک نئی “امت” کی بنیاد پر مبنی تھی، اور یہی بات اس گروہ کو دیگر اسلامی فرقوں سے مکمل طور پر الگ کرتی ہے۔
غیر اسلامی ناموں کا استعمال اور اس کے اثرات
ہندومت سے ماخوذ القابات
مرزا غلام احمد کو دیے گئے بعض القابات جیسے “کرشن”، “برہمن اوتار”، “رودر گوپال”، اور “آریوں کا بادشاہ” ہندو دھرم کے دیوتاؤں اور اوتاروں سے لیے گئے ہیں۔ اسلام میں توحید کا تصور نہایت سخت اور خالص ہے۔ کسی بھی مسلمان شخصیت کو ایسے نام دینا جو شرک کے مفہوم رکھتے ہوں، انتہائی خطرناک بات ہے۔
یہ القابات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قادیانی جماعت نے اپنے بانی کی شخصیت کو ایک کثیر المذہبی روحانی رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جو اسلامی تعلیمات کے سخت خلاف ہے۔
توحید پر ضرب – شرک کا پہلو
اسلام میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے، یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ جب کسی انسان کو ایسے نام دیے جائیں جو الٰہی صفات کے حامل ہوں یا دیگر مذاہب کے خداؤں سے مماثلت رکھتے ہوں، تو یہ نہ صرف شرک کے زمرے میں آتا ہے بلکہ دینِ اسلام کی بنیادی جڑیں ہلا دیتا ہے۔
علماء اسلام نے واضح طور پر فتویٰ دیا ہے کہ مرزا غلام احمد کو ان القابات سے پکارنا یا ان کے معانی کو قبول کرنا اسلامی عقیدے کی نفی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے مقام سے تقابل – ایک ناقابل قبول عمل
نبی کریم ﷺ کی افضلیت اور مقام
اسلام میں نبی کریم محمد ﷺ کو “رحمت للعالمین”، “خاتم النبیین”، “سید الانبیاء” جیسے اعلیٰ ترین القابات دیے گئے ہیں۔ آپ ﷺ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور احادیث میں بارہا افضل ترین قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت اور مقام تمام انسانوں کے لیے نمونہ ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی نبی یا رسول نہ آیا ہے، نہ آئے گا۔
جب قادیانی جماعت مرزا غلام احمد کو ایسے القابات دیتی ہے جو نبی کریم ﷺ کے القابات سے مشابہ ہوں یا ان سے بلند درجہ ظاہر کرتے ہوں، تو یہ عمل اسلامی عقائد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔ یہ گویا نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی اور اُن کے مقام پر ڈاکہ ہے۔
قادیانی جماعت کی کوشش – ایک نیا نبی، ایک نئی امت
مرزا غلام احمد کو دیے گئے 99 نام، درحقیقت صرف ایک فہرست نہیں بلکہ ایک نئی مذہبی شناخت کی تشکیل ہے۔ قادیانی جماعت نے انہیں “مسیح موعود” اور “نبی اللہ” قرار دے کر نبی کریم ﷺ کی جگہ ایک نئی روحانی قیادت متعارف کروائی۔ اس کا مقصد ایک نئی امت کی تشکیل اور مرزا غلام احمد کو ایک مستقل رہنما اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا تھا، جو اسلام کی بنیادی عقائد کے صریح خلاف ہے۔
مسلمانوں کی اجتماعی رائے اور علمی فتاویٰ
دارالعلوم دیوبند، بریلوی مکتب فکر اور دیگر اہلِ سنت کے فتاویٰ
دنیا بھر کے معتبر اسلامی اداروں اور علماء نے قادیانی عقائد پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
اہل سنت مکتبۂ بریلوی، دارالعلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ، اور دیگر مکاتب فکر نے متفقہ طور پر فتویٰ دیا کہ قادیانی عقائد اسلام کے دائرے سے خارج ہیں۔
یہ فتاویٰ صرف ایک شخص کے انفرادی نظریے پر نہیں بلکہ جماعت کے اجتماعی عقائد، مرزا غلام احمد کے دعوے، اور ان کے ماننے والوں کے طرزِ عمل پر مبنی ہیں۔ علماء نے قادیانی جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے حق میں دلائل دیے جو بعد میں کئی اسلامی ممالک میں قانونی صورت بھی اختیار کر گئے۔
عالمِ اسلام کی مشترکہ رائے
او آئی سی (OIC) کے اجلاسوں میں بھی قادیانی جماعت کے عقائد کو اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ پاکستان، انڈونیشیا، سعودی عرب، ملائشیا سمیت متعدد ممالک میں اس جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عالمی اجماع اس بات کا ثبوت ہے کہ قادیانی نظریات نہ صرف متنازعہ ہیں بلکہ امت مسلمہ کے عقائد سے مکمل طور پر متصادم بھی ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے تجزیہ اور ردّ
اجتہاد یا بدعت؟
قادیانی جماعت کے حامی بعض اوقات مرزا غلام احمد کے لیے 99 ناموں کو اجتہاد قرار دیتے ہیں۔ یعنی دینی مفہوم میں ایک نئی تشریح یا تفسیر۔ لیکن علماء کرام واضح کرتے ہیں کہ اجتہاد وہ ہوتا ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے، نہ کہ اس کے خلاف۔
جب ایک عمل قرآن کی آیات، نبی کریم ﷺ کی احادیث، اور اجماع امت کے خلاف ہو تو وہ اجتہاد نہیں بلکہ بدعت کہلائے گا۔ مرزا غلام احمد کو دیے گئے القابات، اور ان کے تحت پیدا کردہ نئے عقائد، اجتہاد نہیں بلکہ ایک باقاعدہ بدعت اور گمراہی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
عقیدۂ ختم نبوت پر حملہ
مرزا غلام احمد کی طرف نسبت دی گئی تمام صفات، القابات، اور روحانی دعوے، بالآخر عقیدہ ختم نبوت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ختم نبوت صرف ایک عقیدہ نہیں بلکہ اسلام کا بنیادی جزو ہے۔ اس میں کسی قسم کا سمجھوتہ، رعایت یا نرمی ممکن نہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے لیے جو 99 ناموں کی فہرست ترتیب دی گئی، وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ ایک نئے مذہب کی بنیاد بن چکی ہے۔ ان میں شامل مشرکانہ، غیر اسلامی، اور نبوی مشابہت والے القابات اسلامی عقائد کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ مسلمانوں کا اجماعی ردّ عمل، علمی فتاویٰ، اور دینی استدلال اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ قادیانی جماعت کا نظریہ اسلام سے خارج ہے۔